My daily dairy
اسلام علیکم دوستو کیسے ہو امید ہے سب ٹھیک ٹھاک ہونگے میرا آج کا بلاگ دیہات میں رہنے والے ان لوگوں کا ہے جن کے پاس کھانے کو بچائیں یہاں کے لوگ کھیتی باڑی کرتے ہیں سارا سارا دن کھیت میں رہنے کے باوجود بھی بھوکے اور غربت کے مارے ہوتے ہیں ان لوگوں کی غربت کے سب سے بڑی وجہ یہاں نہری پانی کا وافر مقدار میں نہ ہونا ہے زمین زرخیز نہ ہونے کی وجہ سے یہاں فصلوں کو پانی وافر مقدار میں دیا جاتا ہے اور دوسرے علاقوں کی نسبت یہاں کھاد بھی زیادہ استعمال ہوتی ہے اس کے ساتھ ساتھ یہ تنگ نظر لوگ ہوتے ہیں جو سارا دن صرف کی دیواریں کرتے ہیں اور کوئی کام نہیں کرتے یہاں کوئی صنعتی فیکٹری بھی نہیں ہے جہاں وہ سارا دن کام کریں غربت کی سب سے بڑی وجہ ان کی سوچ بھی ہوتی ہے یہ لوگ گھر میں دس افراد ہونے کے باوجود ایک ایکڑ اپنے فصل پر انحصار کرتے ہیں اور ذرا اس فصل کا حال بھی سن لیجئے اور جو کھاد اٹھاتے ہیں فصلوں کو دینے کے لئے اس میں سے تیس پرسنٹ سود والے کو دینا پڑتا ہے اسی لیے جب یہ تسلسل اٹھا رہے ہوتے ہیں تو سب سے زیادہ مقروض یہ لوگ ہوتے ہیں یہ لوگ کوئی کاروبار ڈھونڈنے کی کوشش بھی نہیں کرتے اسی لیے ان کی پوری زندگی قرض میں ہی گزر جاتی ہے خیرات کرنی ہے تو سود لے کر شادی کرنی ہے تو سود لے کر جو پانی لگانے تو سود لے کر جب فصل اٹھانے کی باری آتی ہے تو سارا فصل سود والا اٹھا کر لے جاتا ہے یہ فصل دے کر بھی پھر اسے سود والے کے پاس چلے جاتے ہیں کیونکہ ان کے پاس کوئی اور حل نہیں ہوتا لیکن ہمارے حکومت کے پاس بھی کوئی ایسا سسٹم نہیں ہیں جو اس سود کو ختم کر سکے ان کے زندگی کو آسان بنانا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے کیونکہ ان کی سوچ بھی بدل چکی ہے یہ ان لوگوں کو اپنا مسیحا سمجھتے ہیں جو دس روپے دے کر سو روپے ان سے لے لیتے ہیں
ان لوگوں کو سمجھانے پر یہاں کیسی الٹی سیدھی دلیلوں کے پیش کرتے ہیں جن کو دیکھ کر آپ خود جذبات میں گم ہوجاتے ہیں اور آپ سمجھتے ہیں کہ شاید یہ مشکل ترین وقت سے گزر رہے ہیں لیکن اگر ان لوگوں کی سوچ کو دیکھا جائے تو چاہے ایک کروڑ روپیہ بھی دیا جائے تو یہ کاروبار شروع نہیں کریں گے ان کی سوچ کو دنیا نے محدود کرکے رکھ دیا ہے یہ صرف یہ سوچتے ہیں سود لے کر فصل ہونے اور پھر واپس لوٹا کر دوسروں کو دے دینی ہے کے ساتھ ساتھ پاکستان کی حکومت بھی ان کے بارے میں کچھ نہیں سوچ رہے کوئی آسان اقساط پر قرضہ بھی نہیں دیتا بل سود کے ساتھ وصول کرتے ہیں حکمرانوں کو چاہئے کہ ان لوگوں کو موٹیویٹ کیا جائے کہ وہ کاروبار کی طرف رجوع کریں اگر ایک ایکڑ والا شخص دس افراد کو پال رہا ہے تو یہ بہت مشکل ترین کام ہے اس شخص کو موٹیویٹ کیا جائے کہ وہ دوسرے کاروبار کی طرف بھی توجہ دیں تاکہ وہ آسانی سے اپنا گزارا کر سکے اور اور ان سود خوروں کے خلاف ایک تحریک چلائی جائے جو پاکستانی معیشت کو دیمک کی طرح چاٹ رہے ہیں اور ان کے پاس کچھ نہ ہونے کے باوجود لاکھوں روپے کے بینک اکاؤنٹس دیہات میں ان لوگوں کو بڑے عزت کی نظر سے دیکھا جاتا ہے اگر کوئی بھی بیمار ہوتا ہے تو یہ شخص اس کو مدد کرنے کی وجہ سے سود پر قرضہ دیتے ہیں یہی حال ہمارے اسلامی سکالرز کا ہے یہ ابھی تک یہ فیصلہ نہیں کر پائے کہ سود اور پرافٹ میں کیا فرق ہے
بلکہ ان میں سے اکثر علماء تو خود کوپرا فٹ میں ملوث ہوتے ہیں
اگر سود اور پرافٹ ایک ہی چیز نہیں ہے تو پھر ہمیں اسلامی نظریات سے لاتعلق ہونا پڑے ہوئے اگر آپ گھر بیٹھ کر تجزیہ کریں تو آپ کو معلوم ہو گا ان میں کوئی بھی فرق نہیں ہے
اگر ہم مسلمان ہیں عیسائ ہیں یہودی ہیں یا ہندو ہیں یا کوئی بھی مذہب سے تعلق رکھتے ہیں تو ہمیں ان کی کتابوں کے مطابق قانون میں تبدیلی لانی پڑے گی اگر ہم اس نظام میں تبدیلی لانے کی کوشش نہیں کریں گے تو سود خور امیر سے امیر اور غریب غریب سے غریب تر ہوتا جائے گا
حکمرانوں کو چاہئے کہ وہ ان کے خلاف کوئی نہ کوئی کاروائی ضرور کریں یا پھر وہ لوگ جنہوں نے سود پر قرض لیا ہوا ہے ان سب کا سود معاف کیا جائے اور اور اصل رقم واپس کی جائے ۔ ۔۔
In English Form
Hello friends, how are you? I hope all is well. My blog today is about people living in villages who have food to save. People here farm. They stay in the fields all day, but they are hungry and poor. The biggest reason for the poverty of these people is the lack of abundant canal water here. Due to the lack of fertile land, crops are given abundant water here and fertilizer is also used more here than in other areas. At the same time, there are these narrow-minded people who work all day only on the walls and do no work. There is no industrial factory where they work all day. The biggest cause of poverty is their thinking. Even though there are ten people in the house, one acre depends on their crop and just listen to the situation of this crop and those who take fertilizer have to give thirty percent of it to the usurer to give the crops. These people are the most indebted, they don't even try to find a business. That is why they spend their whole life in debt. They have to give alms, they have to get married with interest, they have to pay interest, they have to pay for water, they have to pay interest, when it is their turn to pick the crop, Even after giving this crop, they go to the usurer because they have no other solution but our government also does not have any system that can eliminate this usury, it is not difficult to make their life easier. Impossible because their thinking has also changed. They consider people as their Messiah who pay ten rupees and take a hundred rupees from them.
Here are some of the most straightforward arguments you can put forward to explain to people that you find yourself lost in emotion and that you may be going through the most difficult time, but if you look at their thinking, Even if one crore rupees is given, they will not start this business. Their thinking has been limited by the world. They only think that they have to reap the harvest with interest and then give it back to others as well as the government of Pakistan. Don't even think about them. No one even lends in easy installments. Receive bills with interest. Rulers should motivate these people to go back to business. So it is very difficult to motivate this person to focus on other businesses so that he can make a living easily and to launch a movement against the usurers who are like termites to the Pakistani economy. They are licking and even though they have nothing, bank accounts worth lakhs of rupees are highly respected in the villages. It is seen from Zar that if anyone is ill then this person lends on interest to help him. The same is the case with our Islamic scholars. They have not yet been able to decide what is the difference between interest and profit.
On the contrary, most of these scholars themselves are involved in copra fit
If interest and profit are not the same thing, then we have to be indifferent to Islamic ideology. If you analyze at home, you will know that there is no difference between them.
If we are Muslims, Christians, Jews, Hindus or any other religion, then we have to change the law according to their books. If we do not try to change this system, then the usurer will be richer than the rich. And the poor will get poorer and poorer
The rulers must take some action against them or the interest of all those who have taken loans on interest should be forgiven and the original amount should be returned. ...
تبصرے